dailymotion

adsagony2

Wednesday 31 January 2018

سابق وزیراعظم کی نااہلی


لاہور (ویب ڈیسک )سینیئر وکیل اور ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر جاری ہونے والے عوامی نوٹس کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ
اگرچہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے اب تک ریلف حاصل نہیں ہوا، مگر انہیں اس معاملے میں دلچسپی لینی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ ‘بطور ایک وکیل میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف عدالت میں آکر دلائل پیش کریں تاکہ اس معاملے پر پیدا ہونے والی جو الجھن ہے وہ دور ہوسکے’۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کسی کے حق میں آئے یا مخالفت میں، لیکن سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، لہذا اس کا احترام ہر ایک کی اولین ذمہ داری ہے۔آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سابق وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق بات کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کی اس شق میں نااہلی کی مدت واضح نہیں کی گئی اور یہی ایک وجہ ہے جس سے مختلف آراء سامنے آرہی ہیں، تاہم پاناما لیکس کے فیصلے کو دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ یہ نااہلی تاحیات نہیں، بلکہ صرف کسی ایک الیکشن تک کے لیے ہے۔اس سوال پر کہ اگر ایک شخص کسی غلطی بیانی کی وجہ سے صادق اور امین نہیں رہا ہو تو کیا ممکن ہے کہ معافی کے بعد اُسے دوبارہ سے عوامی نمائندہ بننے کی اجازت مل سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معافی کا راستہ ہر وقت کھلا رہتا ہے،
کیونکہ اسے مذہب نے بند کیا ہے اور نہ ہی کوئی دستور ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نااہلی کوئی سزا نہیں، بلکہ صرف ایک مدت ہے، لہذا وہ مدت مکمل ہونے کے بعد متاثر شخص پر سے تمام پیچھلے الزامات ختم ہوجاتے ہیں۔پروگرام میں موجود اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر عارف چوہدری کا کہناتھا کہ ان کے خیال میں عدالت اس معاملے پر جو بھی فیصلہ دے گی وہ تاحیات نااہلی ہی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ عدالت پہلے بھی پاناما فیصلے کے بعد اس بات کا کئی پہلوؤں سے جائزہ لے چکی ہے، لہذا وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ اناہلی کسی ایک الیکشن تک کے لیے ہے۔نواز شریف کی عدالت میں عدم پیشی پر عارف چوہدری نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسوں اور ریلیوں میں خود عدلیہ سے متعلق اپنے ایک منفی تاثر کو جنم دے دیا اور اس کے باعث اب کوئی بھی شخص انہیں عدالت جانے کا مشورہ بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی ان کی جماعت میں مستقبل کے حوالے سے کوئی قانونی مشاورت ہورہی ہے، بلکہ وہ اب بھی خود کو اہل تصور کرتے ہیں۔خیال رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی
کے معاملے پر عوامی نوٹس جاری کیا تھا جس کے مطابق عدالتی فیصلے سے متاثرہ شخص عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطاء بندیال اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کے معاملے پر آئینی و قانونی سوالات کا جائزہ لینے سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی۔گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ اس آرٹیکل سے متاثر ہیں وہ عدالت سے رجوع کریں۔مذکورہ اپیل کے درخواست گزار سمیع بلوچ کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت عوامی نوٹس جاری کرے، جبکہ دوسرے آپشن میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو منگل 30 جنوری کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کیے تھے۔

No comments:

Post a Comment