dailymotion

adsagony2

Wednesday 31 January 2018

دورہ نیوزی لینڈ


لاہور(ویب ڈیسک) پاکستان کرکٹ ٹیم کے 8 کھلاڑی اور 4 آفیشلز دورہ نیوزی لینڈ کے بعد لاہور پہنچ
گئے۔نیوزی لینڈ سے پانچ ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے 8 کھلاڑی لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔کھلاڑیوں میں محمد حفیظ، محمد عامر، بابر اعظم،
حسن علی، احمد شہزاد، فہیم اشرف، حارث سہیل اور عامر یامین شامل ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حسن علی زخمی ہونے کے باعث ویل چیئر پر بیٹھ کر ایئرپورٹ سے باہر آئے۔قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر رومان رئیس گذشتہ روز نیوزی لینڈ سے کراچی پہنچے تھے۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون ٹیم بننے پر خوشی ہے۔واضح رہے کہ اتوار 28 جنوری کو ماؤنٹ ماؤنگنوئی میں 3 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر نہ صرف پاکستان نے سیریز اپنے نام کی بلکہ وہ ٹی ٹوئنٹی کی نمبرون ٹیم بھی بن گئی۔پاکستان نےکیویز کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پہلی مرتبہ شکست دی ہے۔اس سے قبل پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو وائٹ واش کردیا تھا۔وطن واپس پہنچنے پرکپتان نے میڈیا کیساتھ بات چیت سے گریز کیا، انجرڈ فاسٹ بولر حسن علی کو وہیل چیئر پر ایئرپورٹ سے باہر لایا گیا، حالانکہ نیوزی لینڈ سے سیریز جیتنے کے جشن میں وہ سب سے آگے رہے ، روانگی کے وقت بھی وہ خود چل رہے تھے اور سوشل میڈیا پر سلیفیز بھی شیئر کیں۔
لاہور(ویب ڈیسک) پاکستان کرکٹ ٹیم کے 8 کھلاڑی اور 4 آفیشلز دورہ نیوزی لینڈ کے بعد لاہور پہنچ گئے۔نیوزی لینڈ سے پانچ ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے 8 کھلاڑی لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔کھلاڑیوں میں محمد حفیظ، محمد عامر، بابر اعظم،
حسن علی، احمد شہزاد، فہیم اشرف، حارث سہیل اور عامر یامین شامل ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حسن علی زخمی ہونے کے باعث ویل چیئر پر بیٹھ کر ایئرپورٹ سے باہر آئے۔قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر رومان رئیس گذشتہ روز نیوزی لینڈ سے کراچی پہنچے تھے۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون ٹیم بننے پر خوشی ہے۔واضح رہے کہ اتوار 28 جنوری کو ماؤنٹ ماؤنگنوئی میں 3 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر نہ صرف پاکستان نے سیریز اپنے نام کی بلکہ وہ ٹی ٹوئنٹی کی نمبرون ٹیم بھی بن گئی۔پاکستان نےکیویز کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پہلی مرتبہ شکست دی ہے۔اس سے قبل پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو وائٹ واش کردیا تھا۔وطن واپس پہنچنے پرکپتان نے میڈیا کیساتھ بات چیت سے گریز کیا، انجرڈ فاسٹ بولر حسن علی کو وہیل چیئر پر ایئرپورٹ سے باہر لایا گیا، حالانکہ نیوزی لینڈ سے سیریز جیتنے کے جشن میں وہ سب سے آگے رہے ، روانگی کے وقت بھی وہ خود چل رہے تھے اور سوشل میڈیا پر سلیفیز بھی شیئر کیں۔

زلزلے کے شدید جھٹکے


پشاور(ویب ڈیسک ) ملک بھر میں آج زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق ریکٹر اسکیل پر 
زلزلے کے شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی ۔ زلزلے کا مرکز کوہ ہندوکش کا علاقہ تھا جبکہ زلزلے کی گہرائی 169 کلو میٹر تھی ۔ زلزلے کے نتیجے میں لنڈی ارباب میں ایک اسکول کی عمارت گر گئی ۔
جس کے نتیجے میں متعدد بچے زخمی ہوگئے ۔ ایدھی ذرائع کے مطابق زخمی بچوں کو عمارت کے ملبے تلے سے نکالنے اور طبی امداد فراہم کرنے کا سلسلی جاری ہے۔اس سے قبل لسبیلہ میں آنے والے زلزلے کی شدت 4.9 ریکارڈ کی گئی، لسبیلہ میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں مکانوں کی چھتیں گر گئیں جس کے نتیجے میں 2 سالہ بچی جاں بحق جبکہ 6 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔خیال رہے کے صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ بلوچستان کے علاقے بیلہ میں زلزلے کے باعث متعدد مکانات کی چھتیں گر گئیں۔تفصیلات کے مطابق زلزلے کے جھٹکے سب سے پہلے بلوچستان کے سرحدی ضلعے لسبیلہ کے علاقے بیلہ میں محسوس کیے گئے۔ زلزلے کے باعث متعدد مکانات کی چھتیں گر گئیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ زلزلے کے جھٹکوں کے باعث متعدد مکانات کی چھتیں گر گئی ہیں۔ زلزلے کی شدت 4.7 جبکہ مرکز لسبیلہ کا علاقہ بیلہ بتایا جارہا ہے۔اسپتال ذرائع کے مطابق زلزلے کے باعث حادثات میں ڈیڑھ ماہ کی بچی جاں بحق جبکہ 9 افراد زخمی بھی ہوگئے ہیں۔زلزلے کے بعد سول اسپتال بیلہ میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی ہے۔دوسری جانب تھوڑی ہی دیر بعد ملک کے دیگر شہروں میں بھی زلزلے کے مزید جھٹکے محسوس کیے گئے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، گلگت، سوات، لوئر اور اپر دیر، چترال، ہنزہ، اسکردو، لاہور، چلاس، بھلوال، پنڈ دادن خان میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ صوبہ بلوچستان اکثر و بیشتر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے۔ سنہ 2013 میں صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران میں 7.7 شدت کے زلزلے نے 800 سے زائد افراد کی جانیں لے لی تھیں۔

سابق وزیراعظم کی نااہلی


لاہور (ویب ڈیسک )سینیئر وکیل اور ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر جاری ہونے والے عوامی نوٹس کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ
اگرچہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے اب تک ریلف حاصل نہیں ہوا، مگر انہیں اس معاملے میں دلچسپی لینی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ ‘بطور ایک وکیل میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف عدالت میں آکر دلائل پیش کریں تاکہ اس معاملے پر پیدا ہونے والی جو الجھن ہے وہ دور ہوسکے’۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کسی کے حق میں آئے یا مخالفت میں، لیکن سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، لہذا اس کا احترام ہر ایک کی اولین ذمہ داری ہے۔آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سابق وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق بات کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کی اس شق میں نااہلی کی مدت واضح نہیں کی گئی اور یہی ایک وجہ ہے جس سے مختلف آراء سامنے آرہی ہیں، تاہم پاناما لیکس کے فیصلے کو دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ یہ نااہلی تاحیات نہیں، بلکہ صرف کسی ایک الیکشن تک کے لیے ہے۔اس سوال پر کہ اگر ایک شخص کسی غلطی بیانی کی وجہ سے صادق اور امین نہیں رہا ہو تو کیا ممکن ہے کہ معافی کے بعد اُسے دوبارہ سے عوامی نمائندہ بننے کی اجازت مل سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معافی کا راستہ ہر وقت کھلا رہتا ہے،
کیونکہ اسے مذہب نے بند کیا ہے اور نہ ہی کوئی دستور ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نااہلی کوئی سزا نہیں، بلکہ صرف ایک مدت ہے، لہذا وہ مدت مکمل ہونے کے بعد متاثر شخص پر سے تمام پیچھلے الزامات ختم ہوجاتے ہیں۔پروگرام میں موجود اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر عارف چوہدری کا کہناتھا کہ ان کے خیال میں عدالت اس معاملے پر جو بھی فیصلہ دے گی وہ تاحیات نااہلی ہی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ عدالت پہلے بھی پاناما فیصلے کے بعد اس بات کا کئی پہلوؤں سے جائزہ لے چکی ہے، لہذا وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ اناہلی کسی ایک الیکشن تک کے لیے ہے۔نواز شریف کی عدالت میں عدم پیشی پر عارف چوہدری نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسوں اور ریلیوں میں خود عدلیہ سے متعلق اپنے ایک منفی تاثر کو جنم دے دیا اور اس کے باعث اب کوئی بھی شخص انہیں عدالت جانے کا مشورہ بھی نہیں دے سکتا اور نہ ہی ان کی جماعت میں مستقبل کے حوالے سے کوئی قانونی مشاورت ہورہی ہے، بلکہ وہ اب بھی خود کو اہل تصور کرتے ہیں۔خیال رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی
کے معاملے پر عوامی نوٹس جاری کیا تھا جس کے مطابق عدالتی فیصلے سے متاثرہ شخص عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطاء بندیال اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کے معاملے پر آئینی و قانونی سوالات کا جائزہ لینے سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی۔گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ اس آرٹیکل سے متاثر ہیں وہ عدالت سے رجوع کریں۔مذکورہ اپیل کے درخواست گزار سمیع بلوچ کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت عوامی نوٹس جاری کرے، جبکہ دوسرے آپشن میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو منگل 30 جنوری کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کیے تھے۔

ودھری سرور


اسلام آباد(ویب ڈیسک )تحریک انصاف نے چودھری سرور کو پنجاب سے سینیٹ الیکشن لڑانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور پی ٹی آئی قیادت نے چودھری سرور کو فیصلے سے آگاہ کر دیا۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے چودھری سرورکو پنجاب
سے سینیٹ الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا ہے اور مرکزی رہنما کو فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے،چودھری سرور نے مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا۔چودھری سرور کو سینیٹ الیکشن لڑانے کا فیصلہ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد کیا گیا ۔واضح رہے تحریک انصاف اراکین پنجاب اسمبلی نے سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ اس سلسلے میں اگلے ہفتے لاہور میں ایک خفیہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے ۔ تحریک انصاف کے رہنما عامر کیانی اور اعجاز چوہدری کے الیکشن لڑنے کا امکان جبکہ سینٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو عمرے سے وطن واپسی پر قائل کرنے کی حکمت عملی بھی تیار کرلی گئی ۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سینٹ انتخابات کے باہر ہونے کے اعلان کے بعد بھی پارٹی کے مقامی رہنما اور اراکین پنجاب اسمبلی نے اس حوالے سے حکمت عملی بنانا شروع کردی کیونکہ ایوان بالا میں پارٹی کا سینیٹرمنتخب کرکے بھیجا جائے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے تیس قانون ساز ہیں جن میں پچیس صوبائی اراکین اور چار عورتوں سمیت ایک اقلیتی ممبر شامل ہے ہر سینیٹر کو سینٹ میں نمائندگی حاصل کرنے کیلئے کم از کم 34ووٹ صوبائی اسمبلی سے درکار ہونگے ۔تحریک انصاف پنجاب کے صوبائی رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی سے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے کی مکمل کوشش ہوگی اور کوشش کرینگے کہ جماعت اسلامی کے ممبر سید وسیم اختر سے بھی انتخابات کے حوالے
سے تعاون حاصل کیاجائے کیونکہ خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی تحریک انصاف کی اتحادی پارٹی ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے سابق رہنما ریاض فتیانہ کے صاحبزادے احسان فتیانہ جو آزاد صوبائی وزیر ہیں انہیں بھی پی ٹی آئی کی حمایت کیلئے قائل کیا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ ڈیرہ غازی خان سے تحریک انصا ف کے صوبائی رکن احمد دریشک کے بیٹے آزاد امیدوار نصراللہ دریشک کو بھی اس سلسلے میں قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین سے بھی ووٹ حاصل کرنے کیلئے جدوجہد ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ تمام صوبائی اراکین اسمبلی عمران خان کی عمرہ واپسی کے بعد ان کو سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے قائل کرینگے اگر اس سلسلے میں وزراء کامیاب ہوگئے تو تحریک انصاف پنجاب کے اراکین اسمبلی تیس جنوری کو سیشن میں شرکت کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارٹی نے ٹکٹ دیا تو سینٹ انتخابات کیلئے تحریک انصاف کے نائب صدر عامر کیانی اور پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری کو کھڑا کئے جانے کا امکان ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ورکرز کنونشن کے بعد سولہ ممبر پنجاب اسمبلی نے ایک مقامی ہوٹل میں اجلاس کیا اور فیصلہ کیا کہ پنجاب سے سینٹ میں ایک پارٹی رکن بھیجنے کیلئے مشترکہ فیصلہ کرینگے جبکہ اگلے ہفتے ڈیرہ غازی خان سے رکن پنجاب اسمبلی کی زیر صدارت اسی طرح کا لاہور میں بھی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک منصوبہ بنایا جائے گا کہ زیادہ تر سینٹ الیکشن کیلئے اسمبلی واپس جانا چاہیے
FacebookTwitterWhatsApp

راؤ انوار کہا ں ہے


کراچی: (ویب ڈیسک ) وزیر اعلیٰ سندھ نے راؤ انوار کے آصف زرداری سے روابط کا الزام مسترد کر دیا۔ ملزم کی عدم گرفتاری پر وضاحت دینے کی بجائے الٹا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ بولے، آپ کے پاس مفرور افسر سے متعلق اطلاعات ہیں تو پولیس کو دیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مقامی ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راؤ انور کے لئے انکوائری کمیٹی قائم کی ہے، ہر ادارے کو راؤ انوار کے حوالے سے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں، اگر اس کے حوالے سے آپ کے پاس اطلاعات ہیں تو پولیس کو دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ راؤ انوار ابھی ملزم کے طریقے سے پیش ہو گا، اگلے پانچ سال میں یورپی یونین کی جانب سے دی گئی گرانٹ سے کام کرینگے، دیگر صوبوں کی نسبت سندھ کی حالت زیادہ خراب ہے، ہم نے اگلے بجٹ میں پانچ فیصد نیوٹریشن کے حوالے سے رکھا ہے، سیہون میں ہم نے ٹراما سینٹر بنایا ہے جو کام کر رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو پول کھولنی ہے تو کھول دے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے موقع پر ایک صحافی نے وزیر اعلیٰ سندھ سے روپوش ہونے والے معطل ایس ایس پی راؤ انوار سے متعلق سوالات کیے جس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ راؤ انوار کہا ں ہے میں اس متعلق کچھ نہیں جانتا، راؤ انوار کا پتا لگانا پولیس کا کام ہے۔صحافی نے سوال کیا کہ راؤ انوار کا کہنا ہے کہ پکڑا گیا تو ساری پول کھول دوں گا؟ جس پر وزیر اعلیٰ نے جواب دیا کہ جس کو پول کھولنی ہے کھول دے۔ صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہتر حالات سندھ میں ہیں، ملک کے دیگر صوبوں کی بہ نسبت سندھ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان اکٹھے آئے ہیں تو مراد علی شاہ نے معنی خیز جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے صرف سنا ہے لیکن ہم اکٹھے ہی ہیں۔ واضح رہے کہ قبائلی نوجوان نقیب اللہ کی جعلی مقابلے میں ہلاکت کے بعد معطل ہونے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوشی اختیار کرلی ہے جنہیں گرفتار کرنے کے لیے سندھ پولیس کی خصوصی ٹیمیں چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ نامعلوم مقام سے میڈیا کو دیے گئے ایک بیان میں راؤ انوار نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہیں گرفتارکیا گیا تو سب کی پول کھول دیں گے

جہیز کے خاتمے سے متعلق بل میں ترمیم


کراچی (ویب ڈیسک )سندھ کابینہ نے جہیز کے خاتمے سے متعلق بل میں ترمیم پیش کی ہے جس میں جہیز کی مالیت کی حد 50 ہزار روپے تک تجویز کی گئی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں جہیز کے خاتمے سے متعلق بل میں ترمیم پر بحث کی گئی۔
کابینہ اجلاس میں جہیز کے خاتمے کے لیے مجوزہ بل پیش کیا گیا جس کے مطابق سندھ میں جہیز 50 ہزار سے زیادہ نہیں ہوگا، مہندی کے گفٹس یا اخراجات 50 ہزارسے زیادہ نہیں ہوں گے۔مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا ہےکہ کسی دباؤ پرجہیز حاصل کرنے پر پابندیہوگی، دُلہا یا اس کے اہلخانہ کسی بھی طرح جہیز کا مطالبہ نہیں کریں گے جب کہ پابندیوں کی خلاف وزری پر 6 ماہ سزا اور بھاری جرمانہ ہوگا۔کابینہ اجلاس میں صوبائی وزیر منظور وسان نے بل میں پیش کی گئی تجاویز پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جہیز کے خلاف اس طرح کی سزا دینا قانوناً مناسب نہیں۔جب کہ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ غیر ضروری مطالبات کا خاتمہ شعور پیدا کرنے سے ہوسکتا ہے، یہ تجویز ایسی ہیں جو فعال کرنا مشکل ہیں، ہمیں ایسا قانون بنانا چاہیے جو لاگو ہوسکے اور اگر کوئی جہیز لے تو اسے برا محسوس ہو۔دوسری جانب ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سندھ کابینہ نے جہیز کے خاتمے سے متعلق بل منظور نہیں کیا ہے۔
کراچی (ویب ڈیسک )سندھ کابینہ نے جہیز کے خاتمے سے متعلق بل میں ترمیم پیش کی ہے جس میں جہیز کی مالیت کی حد 50 ہزار روپے تک تجویز کی گئی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں جہیز کے خاتمے سے متعلق بل میں ترمیم پر بحث کی گئی۔
کابینہ اجلاس میں جہیز کے خاتمے کے لیے مجوزہ بل پیش کیا گیا جس کے مطابق سندھ میں جہیز 50 ہزار سے زیادہ نہیں ہوگا، مہندی کے گفٹس یا اخراجات 50 ہزارسے زیادہ نہیں ہوں گے۔مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا ہےکہ کسی دباؤ پرجہیز حاصل کرنے پر پابندیہوگی، دُلہا یا اس کے اہلخانہ کسی بھی طرح جہیز کا مطالبہ نہیں کریں گے جب کہ پابندیوں کی خلاف وزری پر 6 ماہ سزا اور بھاری جرمانہ ہوگا۔کابینہ اجلاس میں صوبائی وزیر منظور وسان نے بل میں پیش کی گئی تجاویز پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جہیز کے خلاف اس طرح کی سزا دینا قانوناً مناسب نہیں۔جب کہ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ غیر ضروری مطالبات کا خاتمہ شعور پیدا کرنے سے ہوسکتا ہے، یہ تجویز ایسی ہیں جو فعال کرنا مشکل ہیں، ہمیں ایسا قانون بنانا چاہیے جو لاگو ہوسکے اور اگر کوئی جہیز لے تو اسے برا محسوس ہو۔دوسری جانب ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سندھ کابینہ نے جہیز کے خاتمے سے متعلق بل منظور نہیں کیا ہے۔

عاصمہ کے قتل کا ازخود نوٹس

 
اسلام آباد(ویب ڈیسک)کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کے قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی۔چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود سے رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔
گذشتہ روز عاصمہ کے قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ
ملزم کس طرح ملک سے بھاگ گیا؟ ملزم کا پکڑانہ جانا خیبر پختونخوا پولیس کی مکمل ناکامی ہے۔واضح رہے کہ 28 جنوری کو کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو رشتہ نہ دینے پر مجاہد اللہ آفریدی نامی شخص نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، جس سے طالبہ جاں بحق ہوگئی تھی۔گذشتہ روز پولیس نے طالبہ کے قتل میں نامزد ایک ملزم صدیق اللہ آفریدی کو گرفتار کیا تھا۔ڈی پی او کوہاٹ کا کہنا تھا کہ نامزد ملزم صدیق آفریدی، مرکزی ملزم مجاہد گل آفریدی کا بھائی ہے جب کہ بیرون ملک فرار مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جارہا ہے۔یاد رہے ۔28 جنوری کو کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو رشتہ نہ دینے پر مجاہد اللہ آفریدی نامی شخص نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا جس سے لڑکی جاں بحق ہوگئی۔ڈی پی او کوہاٹ کے مطابق عاصمہ کے قتل میں نامزد ملزم صدیق آفریدی کو گرفتار کرلیا ہے جو مرکزی ملزم مجاہد گل آفریدی کا بھائی ہے جب کہ بیرون ملک فرار مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جارہا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے بھی عاصمہ کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔چیف جسٹس نے مردان میں 4 سالہ بچی عاصمہ کے قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اس واقعے کا نوٹس لیا۔اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سنا ہے پی ٹی آئی کے رہنما کا عزیز ملوث ہے؟ وہ لڑکا کس طرح ملک سے بھاگ گیا؟چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی خبیر پختونخوا صلاح الدین محسود سے 24گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی۔واضح رہے کہ کوہاٹ میں طالبہ کو قتل کرنے کے بعد ملزم پولیس کی کارروائی سے پہلے ہی بیرون ملک فرار ہوگیا جسے گرفتار کرنے کے لیے انٹرپول سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا


زلزلے کے شدید جھٹکے



اسلام آباد(ویب ڈیسک ) صوبہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ بلوچستان کے علاقے بیلہ میں زلزلے کے باعث متعدد مکانات کی چھتیں گر گئیں۔تفصیلات کے مطابق زلزلے کے جھٹکے سب سے پہلے بلوچستان کے سرحدی ضلعے لسبیلہ کے علاقے بیلہ میں محسوس کیے گئے۔
زلزلے کے باعث متعدد مکانات کی چھتیں گر گئیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ زلزلے کے جھٹکوں کے باعث متعدد مکانات کی چھتیں گر گئی ہیں۔ زلزلے کی شدت 4.7 جبکہ مرکز لسبیلہ کا علاقہ بیلہ بتایا جارہا ہے۔اسپتال ذرائع کے مطابق زلزلے کے باعث حادثات میں ڈیڑھ ماہ کی بچی جاں بحق جبکہ 9 افراد زخمی بھی ہوگئے ہیں۔زلزلے کے بعد سول اسپتال بیلہ میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی ہے۔دوسری جانب تھوڑی ہی دیر بعد ملک کے دیگر شہروں میں بھی زلزلے کے مزید جھٹکے محسوس کیے گئے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، گلگت، سوات، لوئر اور اپر دیر، چترال، ہنزہ، اسکردو، لاہور، چلاس، بھلوال، پنڈ دادن خان میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ صوبہ بلوچستان اکثر و بیشتر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے۔ سنہ 2013 میں صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران میں 7.7 شدت کے زلزلے نے 800 سے زائد افراد کی جانیں لے لی تھیں۔یاد رہے کہ ملکی تاریخ کے شدید ترین زلزلے کے نتیجے میں سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے ہل گئے کئی بستیاں زمین بوس ہوگئیں،بلوچستان کے ضلع آوارن اور کیچ میں 328 افرادجان کی بازی ہارگئے جبکہ بیسیوں انسان زخموں سے چور ہو گئے، گوادر کے قریب سمند ر میں جزیزہ ابھر آیا۔
زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ اس کے اثرات پڑوسی ملک بھارت کے علاوہ سمندر پار دبئی اور مسقط تک پہنچے اور وہاں کی عمارتیں بھی ہل گئیں ۔ بلوچستان کا ضلع آواران سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، متاثرین کی مدد کے لئے پاک فوج سندھ اور بلوچستان کے متعدد علاقوں میں پہنچ گئی ہے جبکہ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، گاﺅں لباش میں صورتحال زیادہ سنگین ہے،زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے اور دیگر متاثرین کو امدادی سامان پہنچانے کے لئے فوجی ہیلی کاپٹر استعمال کئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو لوگ اپنی معمول کی سرگرمیوں میں مصروف تھے کہ سہ پہر چار بج کر انتیس منٹ پر زمین ہلنے لگی اور دو منٹ تک ہلتی رہی، جو گھروں میں تھے وہ بھی اور جو دفتروں میں تھے وہ بھی استغفار اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے عمارتوں سے نکل آئے،جھٹکے رکنے سے لوگوں کی جان میں جان آئی۔ یہ صورتحال کراچی، کوئٹہ، حیدر آباد، خاران، نوابشاہ، سبی، لاڑکانہ، خضدار، تربت، گوادر، پنجگور، مستونگ، حب، جھل مگسی، جیکب آباد، خیر پور، نوشہرو فیروز، خاران، قلات، ٹھٹھہ، جعفر آباد، دادو، نوشکی اور دالبندین میں تھی۔ ادھر بلوچستان کے علاقہ آواران میں 7.7 شدت کے زلزلے نے تباہی مچا دی، درجنوں بستیاں گر گئیں اور بہت سے لوگ ان میں زندہ دفن ہو گئے

باکسر عامر خان




لندن(ویب ڈیسک ) پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے ان کی بیوی فریال مخدوم اور نجی زندگی کے بارے میں نازیبا کلمات کہنے پر پریس کانفرنس کے دوران سب کے سامنے کینیڈین باکسر فل لو گریکو کے منہ پر پانی کا گلاس دے مارا۔ گزشتہ روز باکسرعامر خان اور ان کے حریف باکسر فل لو گریکو کے درمیان ایک
پریس کانفرنس کے دوران اس وقت بدمزگی ہوگئی جب گریکو نے سب کے سامنے نہ صرف عامر خان کی نجی زندگی کے بارے میں بولنا شروع کردیا بلکہ ان کی بیوی فریال مخدوم اور اینتھنی جوشوا کے تعلقات کے بارے میں بھی نازیبا کلمات کہنے شروع کردئیے۔ پہلے تو عامر خان گریکو کی بات پر مسکراتے رہے تاہم جب معاملہ ان کی برداشت سے باہر ہوگیا تو انہوں نے ٹیبل پر رکھا ہوا پانی کا گلاس گریکو کے منہ پر دے مارا۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق باکسر عامر خان تقریباً 2 سال بعد ایک بار پھر رنگ میں اتر رہے ہیں اور ان کی پہلی فائٹ 33 سالہ کینیڈین باکسر فل لو گریکو کے ساتھ 21 اپریل کو ہوگی۔ دونوں اسی حوالے سے ایک پریس کانفرنس میں شریک تھے جب گریکو نے عامر خان کی نجی زندگی کو نشانہ بنانا شروع کردیاجسے سن کر عامر خان سخت اشتعال میں آگئے اورسامنے رکھا پانی کا گلاس گریکو کے منہ پر دے مارا جس کے جواب میں گریکو نے عامر خان پر حملہ کردیا۔تاہم موقعے پر موجود دیگر افراد اور پروموٹرز نے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرایا اس طرح یہ لڑائی مزید بڑھنے سے پہلے رک گئی۔ دونوں کے درمیان لڑائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔واضح رہے
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق باکسر عامر خان تقریباً 2 سال بعد ایک بار پھر رنگ میں اتر رہے ہیں اور ان کی پہلی فائٹ 33 سالہ کینیڈین باکسر فل لو گریکو کے ساتھ 21 اپریل کو ہوگی۔ دونوں اسی حوالے سے ایک پریس کانفرنس میں شریک تھے جب گریکو نے عامر خان کی نجی زندگی کو نشانہ بنانا شروع کردیاجسے سن کر عامر خان سخت اشتعال میں آگئے اورسامنے رکھا پانی کا گلاس گریکو کے منہ پر دے مارا جس کے جواب میں گریکو نے عامر خان پر حملہ کردیا۔تاہم موقعے پر موجود دیگر افراد اور پروموٹرز نے دونوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرایا اس طرح یہ لڑائی مزید بڑھنے سے پہلے رک گئی۔ دونوں کے درمیان لڑائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔واضح رہے کہ گزشتہ برس عامر خان اور ان کی اہلیہ فریال مخدوم اپنی گھریلو زندگی اور تنازعات کے باعث ساراسال خبروں کی زینت بنے رہے تھے۔ فریال مخدوم نے عامر خان کے گھروالوں پر الزام لگایا تھا کہ ان کے سسرالیوں کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے بعد ازاں عامر خان نے فریال کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم بعد میں انہوں نے علیحدگی کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اپنے اور فریال کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہونے کی نوید سنائی تھی

کشمیر


نامور کالم نگار حسنین جمال اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، پڑھی جاتی تھی، پھر ترانہ ہوتا اس کے بعد چھوٹی موٹی بزم ادب ہوتی۔ وہاں بھی یہی شعر چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے مکے بنا کر پڑھا جاتا۔ آواز میں گھن گرج والا تاثر پیدا کرنے کی کوشش سے رواں رواں لرز اٹھتا۔ تھوڑی دیر میں کلاس ورک کرنے بیٹھ جاتے ۔ یہ سب ان دنوں کی باتیں ہیں جب کشمیر سمیت پوری دنیا بہت خوب صورت نظر آتی تھی۔ آنکھ کے کیمرے کا لینز چھوٹا تھا اور بہت سے منظر فٹ نہ ہو سکنے کی وجہ سے بہت بڑے دکھائی دیتے تھے ۔ پُرجوش بچے اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کا حصول صرف ایک نعرے کی مدد سے ممکن ہوا، باقی کس راہنما نے اس ضمن میں کیا خدمات انجام دیں یا ہجرتوں کے دکھ کیا تھے ہمیں کبھی معلوم نہیں ہو پایا تھا۔ ویسے بھی اس بارے میں کوئی دوسری رائے رکھنے والا اول تو ہمارے سامنے ہوتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی کہیں سے اس موضوع پہ کوئی فلم یا ڈرامہ دکھائی دیتا جو سوچوں کا ساتھ نہ دے سکتا تو ہم بہت آرام سے اسے پروپیگنڈا سمجھ کر مسترد کر دیتے تھے ۔
پھر ہم لوگ تھوڑے بڑے ہوئے تو مقابلے ہوا کرتے تھے ، سکولوں کی سطح پر، تقریری مقابلے سمجھ لیجیے ۔ وہاں ہم لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر اور چہرے کو لال کر کے بہت سے شعر پڑھا کرتے جن میں نیل کے ساحل، کاشغر کی خاک، دین مسلسل، خودی کی بلندی، انسان کی عظمت، حریت فکر، انتھک جدوجہد، کشتیاں جلانا، حق کی فتح ہونا اور نہ جانے کیا کیا ہوا کرتا تھا۔ کسی لفظ کا کوئی مطلب معلوم نہیں تھا۔ ایک بات کا علم تھا کہ آواز جتنی بلند ہو گی، لہجے میں جتنا اعتماد ہو گا، تاثر جتنا ڈرامائی ہو گا اور آئی کانٹیکٹ جتنا سٹرونگ ہو گا جیتنے کے چانس اسی قدر بڑھتے چلے جائیں گے ۔ پڑھنے کا شوق ہوا تو بچوں کے جاسوسی ناولوں سے کام سے شروع کیا۔ مختلف رسالے بھی گھر میں آتے تھے جو سبھی بچوں کے موضوعات کا احاطہ کیا کرتے تھے ۔ اس دوران یوں ہوا کہ ایک عجیب سا احساس ہونا شروع ہو گیا۔ وہ یہ کہ بھئی یہ کہانیاں نری کہانیاں نہیں ہیں، یہ کھیل کھیل میں کوئی نہ کوئی سبق دیا جا رہا ہے ۔ عمر بہت کم تھی، لیکن جہاں کہیں کسی کہانی میں ایسی اصلاحی بو پائی جاتی، اسے وہیں چھوڑ اگلا صفحہ پلٹ لیا جاتا۔ جتنے بھی رسالے ان دنوں گھر آتے تھے
سب کے سب ماشااللہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے کہ معماران قوم نیک پاک، راست گو، خوش چلن اور نظریاتی طور پہ پکے انہی جیسے نظریاتی ہوں۔ اب بھی یاد ہے کہ واحد رسالہ آنکھ مچولی تھا جس میں یہ نصیحت بازی کچھ کم تھی۔ شاید وہ بھی اب بند ہو چکا ہے ۔ پھر عمران سیریز اور بڑوں کے دوسرے جاسوسی ناولوں کا دور آیا۔ عمران سیریز میں چوں کہ اصلاحی مقاصد بہرحال کوئی نہیں تھے یا محسوس نہیں ہوتے تھے ، تو وہ ٹکا کر پڑھیں۔ دوسرے جاسوسی ناولوں کے ہیرو بھی کچھ تاریخی کرداروں جیسے محسوس ہوتے تھے ، پندرہ بیس ناول پڑھنے کے بعد احساس ہونا شروع ہو گیا کہ استاد یہاں بھی وہی سب کچھ ہے جس سے پیچھا چھڑا کر نکلے تھے ۔ انہیں بھی پڑھنا چھوڑ دیا۔ ایک ایک کر کے تمام چیزیں جو اس وقت پڑھیں، آج حماقت معلوم ہوتی ہیں۔ اس پورے سفر میں ایک چیز دل چسپ رہی۔ زبردستی کے سبق دینے والے مضامین کبھی بھول کر بھی نہیں دیکھے ، نہ تصویریں دیکھیں۔ ایک مشہور بچوں کے رسالے میں ہمیشہ کسی نہ تقریب کے قصے ہوتے تھے ، ایڈیٹر بھائی جان نے یہ کیا وہ ادھر گئے ، بچوں نے یہ کہا، بڑوں نے ویسے کیا وغیرہ وغیرہ اور اس سب کے بعد ایک نصیحت بھرا انجام ہوتا تھا۔ وہ تمام صفحات خدا کے فضل سے دم بھر میں پلٹا دئیے جاتے ۔ اسی طرح جہاں کسی سکول کی مطالعاتی سرگرمی کا احوال ہوتا تھا، وہ بھی بھرتی والا معاملہ لگتی تھی۔
ایک ڈائجسٹ کا اداریہ اور شروع میں ہی بہت سی تصاویر والے فلاحی پروگرام، وہ بھی کبھی اپنی جانب توجہ نہیں کھینچ پائے ۔ یہی معاملہ فتح و شکست اور لڑنے بھڑنے والی کہانیوں کا تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ اس سب کی وجہ شاید یہ تھی کہ بچوں اور نوجوانوں کے ادب میں جس جس نے جہاں جہاں اصلاحی مقاصد، وعظ و نصیحت یا کوئی بھی ایسا کام شروع کرنے کی کوشش کی، اس سب سے عام آدمی کا دل اچاٹ ہوتا چلا گیا۔ یہ فطری عمل ہے ۔ کہانی یا تو ہوتی ہے ، یا نہیں ہوتی۔ کہانی اس لیے نہیں ہوتی کہ اس سے کوئی نتیجہ نکلے یا قوم کے بچے اس سے کوئی نیک اثر لیں۔ وہ تو بس ہوتی ہے اور اگر اسے پڑھ کر اچھا لگے تو وہ شاندار کہانی کہلاتی ہے ۔ ہم نے کشمیر کا مسئلہ اسی طرح حل کیا ہے ۔ بچپن سے آج تک پانچ فروری کو ایک ہی طرح کے مخصوص ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، خبروں میں وہی دو تین چہرے ہوتے ہیں، وہی سٹیریو ٹائپ سیاسی بیانات ہوتے ہیں، چند جلسوں کا احوال ہوتا ہے ، چند ریلیوں کی جھلک ہوتی ہے ، چند مولانا، چند وکیل، چند رکن کشمیر کمیٹی کے ہوتے ہیں اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ وغیرہ کہہ کہلوا کر معاملے کا مکو ٹھپ دیا جاتا ہے ۔ ان سب چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ایک ہی جیسی چیزیں اور روئیے دیکھ دیکھ کر بچے اس مسئلے سے جذباتی طور پر دور ہو گئے ۔ وہ بچے پھر بڑے بھی ہونے تھے ۔
اب یہ نسل جانتی ہے کہ اصولی طور پر کشمیر کا الحاق ہمارے ساتھ ہونا تھا۔ باقاعدہ دکھ میں مبتلا ہوتی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم ہوتا ہے ۔ انہیں بھائی سمجھتی ہے ، اپنے جیسے انسان سمجھتی ہے ۔ لیکن یہ بات بھی جانتی ہے کہ یہ مسئلہ مستقل طور پر چھڑا رہتا ہے ۔بار بار اسے نکالا جاتا ہے ، جھاڑا پونچھا اور ورق لگا کر پیش کیا جاتا ہے ، ضرورت ختم ہوتی ہے تو پھر جا کر وہیں کسی طاق پہ دھر دیا جاتا ہے ۔ وہ لوگ کیا چاہتے ہیں، ان کے دکھ درد کیا ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں، وہ کس لیڈر کو اپنا مخلص سمجھتے ہیں، وہ اس کیس کو چلانا کس طرح چاہتے ہیں، پاکستان یا بھارت کے لیے موجودہ سٹریٹجیک حالات میں کشمیر کی اہمیت کیا ہے ، یہ سب باتیں اگر کسی چینل یا اخبار میں آتی بھی ہیں تو لوگ باگ سرسری نظر ڈال کر ہٹ جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے دونوں حکومتوں کا موقف کیا ہو گا۔ اس بیچ نقصان کشمیر کا ہو رہا ہے ، کشمیریوں کا ہو رہا ہے ۔ جس طرح کارگل واقعے سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوئی تھی، قوی امکان تھا کہ مسئلہ کشمیر کسی نہ کسی طور سے حل کر لیا جائے گا۔ حل نہ بھی ہوتا لیکن کوئی پرامن تصفیہ ہونے کا بہت زیادہ چانس تھا۔ پھر نہ وہ حالات رہے نہ وہ طاقت رہنے دی گئی، آج بھی سیاسی حکومتوں کو اسی بے اعتباری کا سامنا ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوئی تھی۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل مضبوط جمہوریت ہے ۔ وہ جمہوریت جس کی بنیادیں مضبوط معیشت پہ استوار ہوں اور جس میں للکارنے کے لیے ایک مستقل دشمن کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ جب تک دو تین سیاسی حکومتیں بغیر کسی اندرونی خلفشار کے اپنی ٹرم پوری نہیں کرتیں، اس وقت تک کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

وینیٹی نمبر پلیٹ



لاہور(ویب ڈیسک )محکمہ ایکسائز دفتر فرید کورٹ ہاؤس میں وینیٹی نمبر پلیٹ کا کاؤنٹر قائم کر دیا گیاہے ۔تفصیلات کے مطابق تمام شہری اپنی من پسند نمبر پلیٹ حاصل کر سکیں گے ،فرید کورٹ سمیت دیگر دفتروں میں بھی وینیٹی نمبر پلیٹ کے کاؤنٹر قائم کر دیئے گئے ہیں ۔وینیٹی نمبر پلیٹ کا ٹھیکہ ایس آئی گلوبل نامی کمپنی کو دیا گیا ہے ،ایکسائز حکام
نے بتایا ہے کہ موٹر سائیکل نمبر پلیٹ 15ہزار جبکہ کار کی قیمت 40ہزار روپے میں جاری کی جائے گی ۔وینیٹی نمبر پلیٹ جاری کرنے کا سلسلہ فروری سے شروع کر دیا جائے گا ۔خیال رہے پچھلے دنوں متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں ہفتے کے روز گاڑیوں کی خصوصی نمبر پلیٹوں کی نیلامی کے موقع پرایک مقامی عرب کاروباری شخصیت نے دنیا کی مہنگی ترین نمبر پلیٹ ’’1‘‘ خرید کر خود کو ’نمبر ون‘ ثابت کر دکھایا۔پچاس لاکھ ڈالر مالیت کی نمبر پلیٹ کے خریدار عارف احمد الزرعونی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ نمبر پلیٹ حاصل کرنے کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔انھوں نے من پسند نمبر پلیٹ پچاس لاکھ ڈالر میں خرید کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔پاکستانی کرنسی میں یہ رقم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔شارجہ میں وی آئی پی نمبر پلیٹوں کی نیلامی کے موقع پر ساٹھ ایسی نمبر پلیٹیں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھیں۔ ان میں ایک پلیٹ نمبر “1” کی خریداری میں عارف الزرعونی نے دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ نمبر کی بولی کے دوران اس کی قیمت ایک کروڑ اسی لاکھ درہم تک جا پہنچی۔ امریکی کرنسی میں یہ رقم تقریباً پچاس لاکھ ڈالر بنتی ہے۔
الزرعونی نے بولی کی آخری رقم ادا کرتے ہوئے ’نمبرون‘ پلیٹ حاصل کرلی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ ہی خود کو نمبر ون دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش تھی کہ ان کی گاڑی کا نمبر پلیٹ بھی’’ 1 ‘‘ہو۔ اس نمبر کے حصول کیلئے وہ کوئی بھی قیمت چکانے کیلئے تیار تھے۔نیلامی میں شریک گاڑیوں کے ساٹھ نمبر پلیٹ مجموعی طور پر پانچ کروڑ درھم یا تقریباً ایک کروڑ تیرہ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئے۔ ان میں 50,333 اور 1000 نمبر بھی شامل تھے۔ 12 اور 22 نمبر پلیٹیں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر کی قیمت میں فروخت ہوئیں ۔ نیلامی میں مجموعی طور پر امارات کے تیرہ سو امرا نے حصہ لیا

یرون ملک جائیداد

لاہور (ویب ڈیسک) ملک میں بیرون ملک جائیداد رکھنے والوں کے لئیے ایمنسٹی سکیم متعارف کرانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ، اس پر بڑے عرصہ سے کام ہو رہا ہے، تا ہم گزشتہ 6 ہفتوں میں اس کام کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ اس میں نواز حکومت سے پہلی حکومتوں کا بھی کچھ ہاتھ ہے
گزشتہ حکومتیں غیر ملکی اثاثوں پر بات کرتی رہیں تھیں، مگر اس وقت جو بین الاقوامی حالات ہیں ان میں پاکستانیوں کے لئے باہر پیسہ رکھنا مشکل ہو گیا ہے اور ان کو ایک موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے، یہ موقع دینا پاکستانیوں اور پاکستانی معیشت دونوں کے لئے اچھا ہے۔ دنیا میں جتنی ایمنسٹی سکیمیں آئیں کامیاب ہوئی ہیں۔ غیر ملکی اثاثوں پر جو دباؤ آرہا ہے یہ ہمارا لایا ہوا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی نظام اس طرف جا رہا ہے کہ ٹیکس چوری ریکارڈ پر لانا ضروری ہے، پاکستانیوں کا کافی زیادہ پیسہ ملک سے باہر ہے، ضرورت اِس بات کی ہے کہ لا محالہ ایسی سکیم لانی پڑے گی جو ہمارے ملک کی ضرورت ہے۔ یہ پہلے کیوں نہیں ہوا اس کا ایک پہلو بین الاقوامی دباؤ ہے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس سکیم کے بارے میں بتا چکے ہیں، پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا بھی اس سکیم کے حامی ہیں، عمران کراچی میں آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا ہمیں ایک سکیم لانی پڑے گی، میرے خیال میں پاکستان میں عرصہ بعد اس پر اتفاق رائے ہوا ہے کہ ایک سکیم آنی چاہئے، اس کے دو قوانین ہونے چاہئیں، ایک غیر ملکی اثاثوں کے ڈیکلیریشن کا ایکٹ اور ایک لوکل
ڈیکلیریشن ایکٹ، بھارت میں بھی دو الگ الگ قانون ہیں۔ غیر ملکی ایکٹ میں انکم ٹیکس اور دیگر قوانین کے حوالے سے بھی ایمنسٹی دینی پڑے گی۔تجویز ہے کہ پہلا اقدام یہ کیا جائے کہ پاکستانی بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ڈیکلیئرکریں چاہے وہ اپنے اثاثے باہر ہی رکھیں اگر وہ ڈیکلیئر کریں گے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لئے سودمند ہوگا، اس ڈیکلیریشن سے پیسہ باہر کی چیکنگ سے بچ جائے گا اور پاکستان میں اس سے آنے والی آمدن بھی محفوظ ہوگی، پاکستان میں جو اثاثے لانے ہیں ان پر شرح کم رکھی جائے، اس سلسلے میں انڈونیشیا کی سکیم کی پیروی کی جائے۔ پاکستانی اس وقت انکم ٹیکس سے پریشان نہیں وہ دیگر قوانین سے پریشان ہیں اس میں ان کا قصور نہیں ہمارے قوانین میں قباحتیں ہیں، آج جو ایمنسٹی ہے وہ صرف انکم ٹیکس کی ہے، بے نامی منی لانڈرنگ کی نہیں ہے، ان قوانین کو بھی ایمنسٹی کے دائرے میں لانا چاہئے، مقامی سطح پر پراپرٹی میں ایک بار ایمنسٹی دے کر اس کی ویلیوایشن کو صحیح سمت میں لانا ہوگا۔ یاد رہے کہ اِس سے پہلے گزشتہ سال اپریل میں اور وقفً دو وقفً کاروباری برادری سرمایہ وطن واپس لانے کیلئے ایمنیسٹی سکیم کی بھرپور حمایت کرتی رہی ہے۔

زینب قتل


لاہور (ویب ڈیسک) چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے زینب قتل کیس میں ٹی وی اینکر شاہد مسعود کے انکشافات پر سوؤموٹو ایکشن کے فالو اپ میں میڈیا انڈسٹری کے بڑوں کی طلبی کا حال دیکھنے ہم بھی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں پہنچ گئے ۔ پوری کارروائی کے دوران کچھ پلے نہ پڑا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی حیثیت مستغیث کی ہے یا ملزم کی؟
نامور کالم نگار حامد ولید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ عدالت ڈاکٹر شاہد مسعود کی شکایت پر کارروائی کررہی ہے یا ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کر رہی ہے ؟ وہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بنائی جانے والی جے آئی ٹی میں کس حیثیت میں پیش ہو کر ثبوت دیں گے، ایک شکائت کنندہ کے طور پر یا ایک ملزم کے طور پرکیونکہ سوؤ موٹو کے جواب میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت میں کچھ بھی تحریری شکل میں جمع نہیں کروایا ہے ، ماسوائے ایک پرچی کے جس پر وفاقی وزیر ااور قصور کی ایک بااثرشخصیت کے نام ہیں اور جو چیف جسٹس کے بقول ابھی تک ان کی جیب میں پڑی ہے اور انہوں نے اس پر درج نام اپنی بیگم سے بھی شیئر نہیں کئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اتوار کے روز عدالت عظمیٰ میں زبانی جمع خرچ کیا گیا جبکہ ہم نے آج تک یہی سنا اور پڑھا تھا کہ عدالت میں ہر بات لکھ کر کی جاتی ہے یا پھر عدالت میں ہر کہی جانے والی بات کو لکھ لیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے مقدمے میں یا پھر ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف مقدمے میں ایسا نہیں ہوا۔ میڈیا انڈسٹری کے بڑوں کے بیانات بھی تحریری طور پر عدالت میں جمع نہیں ہوئے ہیں ، اس کے برعکس ہر ایک نے ڈائس پر جا کر خطاب کیا اور اپنی راہ لی۔ ہاں البتہ چیف جسٹس نے ضرور وضاحت کی کہ ان کے بیانات کی آڈیو ریکارڈنگ کی جا رہی ہے ۔
ہماری چیف جسٹس سے مودبانہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا جائے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے سوؤ موٹو ایکشن کے بعد وہ اپنا جواب تحریری صورت میں خود یا اپنے وکیل کے ذریعے جمع کروائیں اور اس کے ہمراہ اپنے ثبوت بھی نتھی کریں تاکہ کل کا مورخ جب عدالتی ریکارڈ چھانے تو اسے ڈھنگ کی کوئی شے مل سکے جس کی بنیا پر وہ اس مقدمے کا تجزیہ کرسکے۔ گزشتہ روز عدالت میں جتنے بھی بیانات دیئے گئے وہ بغیر کسی حلف کے تھے ، حتیٰ کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی جو کچھ کہا وہ کسی حلف کے تابع نہ تھا ، دوسری جانب حکومتی وکلاء کی جانب سے ہر بات لکھ کر کی گئی ، یہاں تک کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات پر مبنی ملزم عمران علی کے مبینہ بینک اکاؤنٹس پر سٹیٹ بینک کی رپورٹ بھی ایک متفرق درخواست کی صورت میں عدالت میں جمع کروائی گئی تھی۔ آخر ضابطے کی اس کارروائی کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے باب میں کیونکر نظر انداز کیا گیا؟اگر یہی وطیرہ اختیار کیا گیا تو عدالت عظمیٰ میں دیئے گئے بیانات کی عمر بمشکل دس گھنٹوں سے زیادہ نہ ہوگی اور ساری کارروائی ایک ہوائی بات ثابت ہوگی۔
عوام توقع کر رہے تھے کہ چیف جسٹس ڈاکٹر شاہد مسعود سے بینک اکاؤنٹس کے ثبوت طلب کریں گے اور عدم فراہمی (جس کا ہر کسی کوسچائی کی حد تک یقین تھا) کی صورت میں انہیں جیل بھیج دیں گے لیکن چیف جسٹس صاحب نے ایک اور جے آئی ٹی کی تشکیل دے کر معاملے کو التوا میں ڈال دیا ، انہیں احساس ہونا چاہئے تھا کہ اس معاملے پر پہلے ہی ایک جے آئی ٹی بن چکی ہے جس کی فائنڈنگ پر وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کو جھٹلا رہے ہیں ۔جس طرح سے اس جے آئی ٹی کے نتائج کو استعمال کرنے کے بعد (خاص طورپر ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے) بے توقیر کیا گیاوہ کوئی لائق تحسین عمل نہیں تھا۔ کیا بشیر میمن کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی سٹیٹ بینک کی بجائے امریکی پینٹاگون سے ان اکاؤنٹس کی چھان بین کروائے گی ؟جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی کی تشکیل کا سن کر عوام مایوس ہوئے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے والے اکثر اینکر پرسن عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے لیکن اتوار کے روز وہ ازخود نااہل میڈیا کی صورت عدالت عظمیٰ کے سامنے کھڑے تھے ،
ایک عاقبت نااندیش اینکر پرسن نے پورے میڈیا کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیااو ر اب عدالت اور میڈیا ایک دوسرے سے معاونت کے متمنی ہیں ، ایک اور بات یہ محسوس ہوئی کہ معاشرے کے دوسرے طبقوں کی طرح سپریم کورٹ کے ججوں کی بھی ایک نظر اپنے کام پر اور دوسری نظر ٹی وی ٹاک شوز پر ہے ، بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کی آہ و بکا سن کر بھی لگتا ہے کہ خالی میڈیا ہی نہیں اعلیٰ عدلیہ بھی کمرشلزم کا شکار ہو چکی ہے! یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چیف جسٹس نے نہ تو پیمرا اور نہ ہی وزارت اطلاعات کو بلوایا ہے۔ حالانکہ اگر چیف جسٹس چاہتے تو پیمرا کو ایک نوٹس جاری کرکے بھی کارروائی کا آغاز کرسکتے تھے۔ سینئر جرنلسٹ نسیم زہرہ کے بارے میں کہا گیا ان کی خبر کبھی غلط نہیں ہو سکتی حالانکہ سینیٹر مشاہد اللہ نسیم زہرہ کو باور کر اچکے ہیں کہ وہ جنرل مشرف کی ٹیم میں رہی ہیں ۔ سب سے آخر میں دست بستہ گزارش ہے کہ جس طرح چیف جسٹس نے کھلی عدالت میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو سخت نتائج سے خبردار کیا بالکل اسی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود دیگر ٹی وی اینکرز کو اپنے خلاف پروگرام کرنے پر خبردار کر رہے تھے ، وہ بھی اپنی طاقت کا اظہار اسی طرح کر رہے تھے جس طرح معزز عدالت کی جانب سے قانون کی طاقت کا اظہار کیا گیا ، طاقت کے اس بے محابا اظہار سے زینب کے والد اور اس کے لواحقین ایک مرتبہ پھر کمزور نظر آئے۔

سٹنٹ

اسلام آباد(ویب ڈیسک ) سپریم کورٹ میں سٹنٹ استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یقین کیسے ہوگا خریدا گیا سٹنٹ مریض کوڈالا گیا یانہیں؟،اس معاملے کا مکمل ریکارڈ ہونا چاہئے،ڈاکٹرزسے درخواست ہے ایک لاکھ کاسٹنٹ لے کر 2لاکھ وصول نہ کریں۔
پیر کو سپریم کورٹ میں سٹنٹ استعمال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے نمائندہ نسٹ یونیورسٹی سے استفسار کیا کہ کس دن خوشخبری مل رہی ہے کہ ہم نے اپناسٹنٹ بنالیا،اس پر نمائندہ نے عدالت کو بتایا کہ امید ہے پاکستان جون تک سٹنٹ بنالے گا،چیف جسٹس آف پاکستان نے سوال کیا کہ پاکستان میں بنائے گئے سٹنٹ کی قیمت کیاہوگی؟،ڈاکٹر مرتضی نے جواب دیا کہ پاکستان میں بنائے گئے سٹنٹ کی قیمت 15 ہزارروپے ہوگی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں سٹنٹ جون سے پہلے مارکیٹ میں آجائے اورکیا نئے سٹنٹ کی رجسٹریشن درخواست زیرالتواہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصدیق کیلئے وقت دیاجائے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہماری ساری کوشش ٹارگٹڈ ہے، مریض کومعلوم ہونا چاہئے اسے کونساسٹنٹ ڈالاگیا،انہوں نے کہا کہ آج بھی 2 لاکھ روپے میں سٹنٹ ڈالاجارہا ہے، ڈاکٹرزسے درخواست ہے ایک لاکھ کاسٹنٹ لے کر 2لاکھ وصول نہ کریں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ خوشی ہے ہماراسٹنٹ 3 ماہ تک مارکیٹ میں آجائے گا،ہمارا سٹنٹ مارکیٹ میں آنے سے کیا انقلاب آتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ یقین کیسے ہوگا خریدا گیا سٹنٹ مریض کوڈالا گیا یانہیں؟،اس معاملے کا مکمل ریکارڈ ہونا چاہئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 70ہزاروالا سٹنٹ ایک لاکھ 10 ہزار میں ڈالا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے رضا کار چاہئیں جوہسپتالوں کادورہ کرکے رپورٹ دیں،چار ،پانچ لوگوں کو بے نقاب کریں گے تو چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔(ش س م)

راؤ انوار


لاہور ( ویب ڈیسک) کراچی پولیس نے ایس ایس پی راؤ انوار کے سر کی قیمت مقرر کرنے والے شخص زرین داوڑ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے جبکہ حکومت سندھ نے دیگر صوبوں کو خط لکھ کر گرفتاری میں مدد طلب کی ہے۔تفصیلات کے مطابق سندھ کے محکمۂ داخلہ کی جانب سے
پنجاب، اسلام آباد، خیبر پختونخواہ، بلوچستان، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے حکام کو یہ خط تحریر کیا گیا ہے، جس میں انھیں آگاہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں ایس ایس پی راؤ انوار کو پیش ہونے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ ایک ایف آئی آر ملزم زرین داوڑ نامی شخص پر بھی دائر کی گئی ہے جس نے راؤ انوار کے سر کی قیمت 50 لاکھ رپے مقرر کی تھی۔ خبروں کے مطابق صوبائی حکومتوں اور گلگت و کشمیر حکام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایس ایس پی ذوالفقار مہر، ایس ایس پی عابد قائم خانی، ڈی ایس پی ازل نور، انسپیکٹر راجہ مسعود اور دیگر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، لہذا راؤ انوار اور زرین داوڑ کی گرفتاری اور سندھ منتقلی میں مدد فراہم کی جائے ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ’جو بھی راؤ انوار کا سر لائے گا میں اسے 50 لاکھ روپے انعام دوں گا، راؤ انوار نے ایک ایسی قوم سے پنگا لیا ہے جو پختون ہے۔ سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود از خود نوٹس کیس سماعت کے دوران
چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی توجہ اس ویڈیو کی جانب کرائی تھی اور سوال کیا تھا کہ کیا انھوں نے سوشل میڈیا پر وائرل یہ ویڈیو دیکھی ہے، مائیک پر آئیں اور سب کو بتائیں کہ وہ کیا ہے۔ آئی جی نے کمرہ عدالت کو بتایا تھا کہ راؤ انوار کے سر کی قیمت 50 لاکھ رپے مقرر کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں اب اس طرح لوگوں کے سر کی قیمتیں مقرر ہوں گی کیا یہ کلچر معتارف کرایا جائے گا، ہم شہریوں کے حقوق کے محافظ ہیں، یہ ویڈیو 24 گھنٹے سے چل رہی ہے کیا آپ نے کوئی ایکشن لیا؟ آئی جی نے انھیں بتایا کہ یہ ویڈیو راولپنڈی سے اپ لوڈ کی گئی ہے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ نے متعلقہ آئی جی سے رابطہ کیا، اس کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ انھوں نے سوال کیا کہ اس میں کون کون سے دفعات شامل ہوسکتی ہے، جس پر آئی جی نے انھیں بتایا کہ 153 اے، 505، 501 پی پی سی اور 61 اے ٹی اے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس افسر کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ معطل ہی سہی لیکن ہم شہریوں کو یہ لائسنس نہیں دے سکتے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں زرین داوڑ پر ایف آئی آر دائر کرکے گرفتاری کے لیے خط جاری کیا گیا۔

جنسی حملہ

لاہور (ویب ڈیسک) بہت سے درندے انسانوں کے بھیس میں گھوم رہے ہیں اور ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں جن پر ہمارے لوگوں کو کبھی شک بھی نہیں گزرتا کہ وہ بچے پر جنسی حملہ کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بہت قریبی اور درد مند انسان کے طور پر دکھاتے ہیں اور باعزت شہری ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں
نامور خاتون صحافی سدرہ نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے ڈرامہ بازی کے زریعے حاصل کیے گئے رتبہ کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کو جنسی اور جذباتی طور پر تکلیف دیتے ہیں۔ زینب قتل کے بعد پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے ۔ اس واقعہ نے میرے پرانے زخموں کو بھی تازہ کر دیا ہے۔ میں میڈیا کوریج پر مکمل توجہ مرکوز کیے رکھتی ہوں اور بچوں پر تشدد روکنے کے لیے سرگرم ہوں لیکن اندر سے مجھے یہ خوشی بھی ہے کہ زینب کی موت ہو گئی اور وہ اب اس تشدد کے بعد جینے پر مجبور نہین ہو گی۔ میں نہین جانتی کہ کوئی شخص ایک بن ماں کے بچے کی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے جسے بچپن سے جنسی، جسمانی اور ذہنی طور پر تکلیف میں رکھا گیا ہو۔ لیکن یہ ایک گھناونا سچ ہے کہ میں زندگی کے ہر سٹیج پر اس طرح کی تکالیف سہ چکی ہون، مدرسہ کی لڑکیوں کے ہاتھوں اور اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی اور جسمانی حملوں کا سامنا کرتی رہی ہوں۔ میں نے باعزت انسان کے روپ میں چڑیلیں، بھیڑیے اور وحشی درندوں کو دیکھا ہے اور اپنے
آس پاس کے لوگوں کی مجرمانہ خاموشی اور گناہ کی سپورٹ کو دیکھتی آئی ہوں۔ آج جب میں اپنے بچوں کو تعلیم دینے لگتی ہوں کہ وہ کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں تو میرا بیٹا مجھ سے سوالات پوچھتا ہے۔ وہ میری آواز کی کپکپاہٹ کو محسوس کر لیتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ کبھی میرے ساتھ ایسا ہوا تو نہیں ہے۔ میں خاموش ہو جاتی ہوں اور کندھے اچکا دیتی ہوں۔ وہ محفوظ رہنے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے بتاوں کہ خاندان کے افراد کے ساتھ رہنا حفاظت کی ضمانت ہے۔ مدرسہ اور سکول بھی محفوظ جگہیں ہیں اور تمام ماموں اور چاچو تمہارے پاپا کی طرح ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ آدم خور درندے انسانوں کے روپ میں کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بے شرم لوگ پاک ترین اور محفوظ ترین جگہوں پر بھی اپنی گھناونی حرکتیں کرنے پہنچ جاتے ہیں چاہے آپ کے والدین آپ کو بچانے کے لیے زندہ ہوں یا نہ ہوں۔ میں ایسا کہنا پسند نہیں کرتی لیکن میں اس کو بتاتی ہوں کہ وہ ہر وقت الرٹ رہے اور اپنے آپ کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہے۔
جب وہ زینب اور اس طرح کی دوسری بچیوں کے مسائل کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ اسے بتاوں کہ کیسے ایک جنسی حملہ انسان کو پاگل بنا دیتا ہے ، اس کے اعتماد کو تبا ہ کر دیتا ہے ، اس کی معصومیت کو مسل دیتا ہے اور زندگی جہنم بن جاتی ہے کیونکہ انسان کو شرم، خوف اور حوصلہ شکنی کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں لیکن نہیں بتاتی کیونکہ میں اسے اس ٹراما کے بارے میں اسے کچھ سوچنے پر مجبور کروں ۔ لیکن میں اس کی نگرانی کروں گی، اس کو بتاوں گی کہ اپنا خیال رکھے ۔اسے بتاوں گی کہ اپنی بہن کا خیال رکھے، اپنے ساتھی بچوں کا بھی خیال رکھے اور جب کبھی ظلم ہوتا دیکھے تو فورا آواز بلند کرے۔ جب وہ پوچھتا ہے کہ بچوں کو کیسے درندوں سے بچایا جا سکتا ہے تو میرا دل کرتا ہے کہ یہ بتاوں کہ صرف ظالم کو ڈھونڈ نکالنا کافی نہین ہے۔ لوگوں کو اپنی زاتی باونڈریز کا خیال رکھنا چاہیے۔ لوگوں کو تعلیم دی جائے کہ وہ سوشو پیتھی اور پیڈو فیلیا کے بیچ کے فرق کو سمجھ سکیں اور جو لوگ اس طرح کی ذہنیت رکھتے ہوں
انہیں دماغی مریضوں کے ہسپتال میں علاج کےلیے بھیجیں۔ نظام عدل کو بھی محرک ہو کر مجرم کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ اس طرح کے جرم پر خاموش رہیں گے تو نہ صرف مظلوم کی روح تڑپے گی بلکہ معاشرے کا ضمیر بھی مرتا جائے گا۔ میں اس کو یہ نہیں کہتی اگرچہ اس نے مجھے ہمت دی کہ اپنی تکلیف کا اظہار کر سکوں اور اپنی روح کو ا س بہت بڑے بوجھ سے آزاد کر دوں۔ میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ 90 فیصد حملہ آور کے خاندان کے فرد یا قریبی ہوتے ہیں کیونکہ والدین اور سرپرست اپنے بچوں پر اعتبار نہیں کرتے اور انہیں اپنے خاندانی تعلقات خراب کرنے کا الزام دے دیتے ہیں کیونکہ خاندان خود اس طرح کے جرائم میں حصہ دار بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ میرے ساتھیوں اور خاندان کے افراد نے مجھے خاموش رہنے پر مجبور کیا اور کہا کہ اگر بولو گی تو لوگ تم پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ مظلوم کو دوش دینے کی روش ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کروں۔ میں اپنے بیٹے کو ایسا بنانا چاہتی ہوں کہ وہ دوسروں کی تکلیف محسوس کر سکے
اور بیٹی کی ایسی تربیت کرنا چاہتی ہوں کہ و ہ یہ سمجھتی ہو کہ یہ جسم اس کا ہے اور کوئی دوسرا اس کے جسم پر غلط طریقے سے تسلط قائم نہیں کر سکتا۔ جہاں تک بات میری ہے وہ کوشش اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو گی۔ میں اپنی یادوں کے ساتھ ہمیشہ سامنا کرتی رہوں گی۔ لیکن میں اپنے آپ کو کندھے پر ہاتھ مار کر شاباش بھی دوں گی کہ میں نے اتنی مشکل برداشت کرنے کےبعد جینے کوترجیح دی وہ بھی مثبت سوچ کے ساتھ اور دوسروں کو معاف کرنے کی ہمت کر پائی۔ میں اپنے زخم کو گلے لگاوں گی جو میرے تجربات کا حصہ ہیں کیونکہ جس طرح کی شخصیت میں بن چکی ہون اس پر مجھے فخر ہے۔ جب تک خاموشی اختیار کی جاتی رہے گی، بچوں پر جنسی حملوں کا ظلم ہوتا رہے گا۔ ہر کسی کےلیے لازم ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ جب اسے کوئی چیز غلط لگے تو یہ اس کا اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ کسی بھی وجہ سے چاہے وہ ذاتی فائدہ ہو یا مجبوری، خاموشی اختیار کرنا یا انجان بنے رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے برابر ہے ۔(ش س م)

معذرت

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کیلئے رابطہ کیا ہے، مگر حروں کے روحانی پیشوا نے ملاقات سے معذرت کر لی ہے۔ منگل کو نجی ٹی وی کے مطابق سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن)
کے سربراہ میاں نواز شریف نے پیر صبغت اللہ راشدی سے فوری ملاقات کے خواہش مند تھے اسی ضمن میں انھوں نے رابطہ کیا، مگر مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ کی جانب سے نوازشریف سے فوری ملنے سے معذرت کر لی گئی۔نجی ٹی وی کے مطابق صبغت اللہ راشدی نے روحانی سفر کی وجہ سے فوری ملاقات سے معذرت کی ہے. وہ اس وقت چولستان میں حرجماعت کی دعوت پرہیں، جس کی وجہ سے فوری ملاقات ممکن نہیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جانب سے ملاقات کے لیے یکم یا دو فروری کا وقت دینے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی، مگر چولستان میں ہونے کے باعث یہ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ نے مقررہ تاریخوں میں ملاقات ممکن نہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق اس معذرت کا اصل سبب پیرپگارا کی میاں نواز شریف سے ناراضی اور ن لیگ کی پالیسیوں پر تحفظات ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ برس میاںنواز شریف کی نااہلی کے بعد پیر صعبت اللہ راشدی نے اپنے ایک بیان میں? کہا تھا کہ نواز شریف کا اب کوئی مستقبل نہیں، ہماری جماعت وفاق اور پاک فوج کے ساتھ ہے اور اداروں سے ٹکراؤ کی صورت میں نوازشریف کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔خیال رہے کہ ماضی میں پیر آف پگاڑا کو نواز شریف کا سیاسی قبلہ سمجھا جاتا تھا ،جبکہ میاں نواز شریف نے کئی دفعہ مشکل پڑنے پر انہی سے مدد بھی لی تھی 

سینیٹ


اسلام آباد(ویب ڈیسک )الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سینیٹ انتخابات کی تاریخ کا حتمی اعلان منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) نے 9 اراکین پر مشتمل پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیا ہے جو سینیٹ کی نشستوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب کرے گا
دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم کے سلسلے میں پارٹی قائدین سے مشاورت کے لیے اجلاس منعقد کیا۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے مابین بلوچستان کی سینیٹ نشستوں پر محاذ آرائی کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے جہاں پیپلز پارٹی بلوچستان میں سینیٹ کی 6 نشستیں حاصل کرنے میں پُرامید ہے۔تاہم مسلم لیگ (ن) سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں نے بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک التوا کے کیس میں پی پی پی کے کردار پر سخت ‘مذمت’ کی اور امید ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں سینیٹ کی 3 نشستیں حاصل کرلے گی۔پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں ایک اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں بلوچستان کے نو منتخب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور ان کی کابینہ کے اراکین نے بھی شرکت کی تھی۔مذکورہ اجلاس کو ناصرف سینیٹ انتخابات کی مہم کا آغاز سمجھا جا رہا ہے بلکہ بلوچستان کی صوبائی سیاست کے تناظر میں انتہائی اہم پیش رفت بھی سمجھی جارہی ہے۔پارلیمانی بورڈ میں سابق صدر آصف علی زرداری، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زاردی، پارٹی رہنما فریال تالپور، سید قائم علی شاہ، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، فرحت اللہ باہر،
نیربخاری اور صابر بلوچ شامل ہیں۔واضح رہے کہ پی پی پی نے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند امیدواروں سے درخواستیں پہلے ہی وصول کرلی تھیں تاہم 30 جنوری کو کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ کے لیے کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ 3 فروری مقرر کی۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹ چیئرمین رضا ربانی، اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن، پارلیمانی رہنما تاج حیدر، پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر سمیت 18 ارکان کی مدت مارچ میں مکمل ہو رہی ہے جبکہ پی پی پی کے سینٹرز کی مجموعی تعداد 26 ہے۔ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سینیٹ چیئرمین رضا ربانی اور تاج حیدر نے بھی سینیٹ کی نشستوں کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں جبکہ دیگر امیدواروں میں راشد ربانی، وقار مہدی، حنا دستگیر، حمیرا علونی، نعمان شیخ، مولا بخش چانڈیو، جاوید نایاب لغاری، عبدالقیوم سومرو اور ہری رام شامل ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہداللہ خان نے بتایا کہ پارٹی سینیٹ انتخابات میں بلوچستان کی 3 نشستوں پر کامیابی کے لیے پُر امید ہے تاہم عبدالقادر بلوچ، سردار یعقوب ناصر اور فضل مندوخیل پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو صوبے میں انتخابی سرگرمیوں کا جائزہ لے گی
اور پارٹی کی فتح کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔پی پی پی کے بلوچستان میں صوبائی صدر علی مدد جتک نے 30 جنوری کو پریس کانفرس کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ‘مارچ میں منعقد سینیٹ انتخابات میں ہمارا ہدف 6 نشستوں کا حصول ہے’۔اس ضمن میں خیال رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان سے پی پی پی کسی ایک حلقے میں بھی اپنی نشست حاصل نہیں کر سکی تھی تاہم یوسف بادینی نے بلوچستان کی سینیٹ نشست پر کامیاب ہونے کے بعد پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔خیال رہے کہ ان کے مرحوم والد علی محمد بادینی نے بھی سینیٹ کی نشست پر کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی میں اختیار کی تھی۔مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے ختم نبوت کے معاملے سے متعلق تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جو فریقین سے مذاکرات کریں گے اور دو سے تین روز میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کریں گے۔واضح رہے کہ ای سی پی نے سینیٹ انتخابات سے متعلق کئی مہنیوں سے جاری قیاس آرائیوں کا قلع قمع کرتے ہوئے انتخابات 3 مارچ کو کرانے کا فیصلہ سنایا۔ایوانِ بالا کی 104 میں سے 52 نشستوں پر انتخابات 3 مارچ 2018 کو معنقد ہوں گے تاہم سینیٹ انتخابات کا باقاعدہ اعلان 2 فروری کو کیا جائے گا۔52سینیٹرز اپنی 6 سالہ مدت پوری کرکے 11 مارچ کو ریٹائرر ہو جائیں گے جبکہ 12 مارچ کو نئے سینیٹرز حلف اٹھاکر سینیٹر شپ کے حقدار بن جائیں گے۔ایوانِ بالا 104 سینیٹرز پر مشتمل ہوتا ہے جس میں چاروں صوبوں سے مجموعی طور پر 92، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے 8، اسلام آباد سے 4 نشستیں ہوتی ہیں۔صوبے کی سطح پر کل 23 نشستیوں میں سے 14 جنرل، 4 خواتین جبکہ ایک اقلیت اور 4 ٹیکنوکریٹ کے لیے ہوتی ہیں۔ایوان بالا میں سینیٹرز کی نشست 6 سال کی مدت پر محیط ہوتی ہے اور تقریباً ہر تیسرے سال 50 فیصد سینیٹرز ریٹائر ہوتے ہیں اور پھر خالی نشستوں پر نئے سینیٹرز کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔