dailymotion

adsagony2

Wednesday 31 January 2018

زینب قتل


لاہور (ویب ڈیسک) چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے زینب قتل کیس میں ٹی وی اینکر شاہد مسعود کے انکشافات پر سوؤموٹو ایکشن کے فالو اپ میں میڈیا انڈسٹری کے بڑوں کی طلبی کا حال دیکھنے ہم بھی سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں پہنچ گئے ۔ پوری کارروائی کے دوران کچھ پلے نہ پڑا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی حیثیت مستغیث کی ہے یا ملزم کی؟
نامور کالم نگار حامد ولید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ عدالت ڈاکٹر شاہد مسعود کی شکایت پر کارروائی کررہی ہے یا ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کر رہی ہے ؟ وہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے بنائی جانے والی جے آئی ٹی میں کس حیثیت میں پیش ہو کر ثبوت دیں گے، ایک شکائت کنندہ کے طور پر یا ایک ملزم کے طور پرکیونکہ سوؤ موٹو کے جواب میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت میں کچھ بھی تحریری شکل میں جمع نہیں کروایا ہے ، ماسوائے ایک پرچی کے جس پر وفاقی وزیر ااور قصور کی ایک بااثرشخصیت کے نام ہیں اور جو چیف جسٹس کے بقول ابھی تک ان کی جیب میں پڑی ہے اور انہوں نے اس پر درج نام اپنی بیگم سے بھی شیئر نہیں کئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اتوار کے روز عدالت عظمیٰ میں زبانی جمع خرچ کیا گیا جبکہ ہم نے آج تک یہی سنا اور پڑھا تھا کہ عدالت میں ہر بات لکھ کر کی جاتی ہے یا پھر عدالت میں ہر کہی جانے والی بات کو لکھ لیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے مقدمے میں یا پھر ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف مقدمے میں ایسا نہیں ہوا۔ میڈیا انڈسٹری کے بڑوں کے بیانات بھی تحریری طور پر عدالت میں جمع نہیں ہوئے ہیں ، اس کے برعکس ہر ایک نے ڈائس پر جا کر خطاب کیا اور اپنی راہ لی۔ ہاں البتہ چیف جسٹس نے ضرور وضاحت کی کہ ان کے بیانات کی آڈیو ریکارڈنگ کی جا رہی ہے ۔
ہماری چیف جسٹس سے مودبانہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا جائے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے سوؤ موٹو ایکشن کے بعد وہ اپنا جواب تحریری صورت میں خود یا اپنے وکیل کے ذریعے جمع کروائیں اور اس کے ہمراہ اپنے ثبوت بھی نتھی کریں تاکہ کل کا مورخ جب عدالتی ریکارڈ چھانے تو اسے ڈھنگ کی کوئی شے مل سکے جس کی بنیا پر وہ اس مقدمے کا تجزیہ کرسکے۔ گزشتہ روز عدالت میں جتنے بھی بیانات دیئے گئے وہ بغیر کسی حلف کے تھے ، حتیٰ کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی جو کچھ کہا وہ کسی حلف کے تابع نہ تھا ، دوسری جانب حکومتی وکلاء کی جانب سے ہر بات لکھ کر کی گئی ، یہاں تک کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات پر مبنی ملزم عمران علی کے مبینہ بینک اکاؤنٹس پر سٹیٹ بینک کی رپورٹ بھی ایک متفرق درخواست کی صورت میں عدالت میں جمع کروائی گئی تھی۔ آخر ضابطے کی اس کارروائی کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے باب میں کیونکر نظر انداز کیا گیا؟اگر یہی وطیرہ اختیار کیا گیا تو عدالت عظمیٰ میں دیئے گئے بیانات کی عمر بمشکل دس گھنٹوں سے زیادہ نہ ہوگی اور ساری کارروائی ایک ہوائی بات ثابت ہوگی۔
عوام توقع کر رہے تھے کہ چیف جسٹس ڈاکٹر شاہد مسعود سے بینک اکاؤنٹس کے ثبوت طلب کریں گے اور عدم فراہمی (جس کا ہر کسی کوسچائی کی حد تک یقین تھا) کی صورت میں انہیں جیل بھیج دیں گے لیکن چیف جسٹس صاحب نے ایک اور جے آئی ٹی کی تشکیل دے کر معاملے کو التوا میں ڈال دیا ، انہیں احساس ہونا چاہئے تھا کہ اس معاملے پر پہلے ہی ایک جے آئی ٹی بن چکی ہے جس کی فائنڈنگ پر وہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کو جھٹلا رہے ہیں ۔جس طرح سے اس جے آئی ٹی کے نتائج کو استعمال کرنے کے بعد (خاص طورپر ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے) بے توقیر کیا گیاوہ کوئی لائق تحسین عمل نہیں تھا۔ کیا بشیر میمن کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی سٹیٹ بینک کی بجائے امریکی پینٹاگون سے ان اکاؤنٹس کی چھان بین کروائے گی ؟جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی کی تشکیل کا سن کر عوام مایوس ہوئے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے والے اکثر اینکر پرسن عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے لیکن اتوار کے روز وہ ازخود نااہل میڈیا کی صورت عدالت عظمیٰ کے سامنے کھڑے تھے ،
ایک عاقبت نااندیش اینکر پرسن نے پورے میڈیا کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیااو ر اب عدالت اور میڈیا ایک دوسرے سے معاونت کے متمنی ہیں ، ایک اور بات یہ محسوس ہوئی کہ معاشرے کے دوسرے طبقوں کی طرح سپریم کورٹ کے ججوں کی بھی ایک نظر اپنے کام پر اور دوسری نظر ٹی وی ٹاک شوز پر ہے ، بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کی آہ و بکا سن کر بھی لگتا ہے کہ خالی میڈیا ہی نہیں اعلیٰ عدلیہ بھی کمرشلزم کا شکار ہو چکی ہے! یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چیف جسٹس نے نہ تو پیمرا اور نہ ہی وزارت اطلاعات کو بلوایا ہے۔ حالانکہ اگر چیف جسٹس چاہتے تو پیمرا کو ایک نوٹس جاری کرکے بھی کارروائی کا آغاز کرسکتے تھے۔ سینئر جرنلسٹ نسیم زہرہ کے بارے میں کہا گیا ان کی خبر کبھی غلط نہیں ہو سکتی حالانکہ سینیٹر مشاہد اللہ نسیم زہرہ کو باور کر اچکے ہیں کہ وہ جنرل مشرف کی ٹیم میں رہی ہیں ۔ سب سے آخر میں دست بستہ گزارش ہے کہ جس طرح چیف جسٹس نے کھلی عدالت میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو سخت نتائج سے خبردار کیا بالکل اسی طرح ڈاکٹر شاہد مسعود دیگر ٹی وی اینکرز کو اپنے خلاف پروگرام کرنے پر خبردار کر رہے تھے ، وہ بھی اپنی طاقت کا اظہار اسی طرح کر رہے تھے جس طرح معزز عدالت کی جانب سے قانون کی طاقت کا اظہار کیا گیا ، طاقت کے اس بے محابا اظہار سے زینب کے والد اور اس کے لواحقین ایک مرتبہ پھر کمزور نظر آئے۔

No comments:

Post a Comment