dailymotion

adsagony2

Wednesday 31 January 2018

کشمیر


نامور کالم نگار حسنین جمال اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، پڑھی جاتی تھی، پھر ترانہ ہوتا اس کے بعد چھوٹی موٹی بزم ادب ہوتی۔ وہاں بھی یہی شعر چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کے مکے بنا کر پڑھا جاتا۔ آواز میں گھن گرج والا تاثر پیدا کرنے کی کوشش سے رواں رواں لرز اٹھتا۔ تھوڑی دیر میں کلاس ورک کرنے بیٹھ جاتے ۔ یہ سب ان دنوں کی باتیں ہیں جب کشمیر سمیت پوری دنیا بہت خوب صورت نظر آتی تھی۔ آنکھ کے کیمرے کا لینز چھوٹا تھا اور بہت سے منظر فٹ نہ ہو سکنے کی وجہ سے بہت بڑے دکھائی دیتے تھے ۔ پُرجوش بچے اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کا حصول صرف ایک نعرے کی مدد سے ممکن ہوا، باقی کس راہنما نے اس ضمن میں کیا خدمات انجام دیں یا ہجرتوں کے دکھ کیا تھے ہمیں کبھی معلوم نہیں ہو پایا تھا۔ ویسے بھی اس بارے میں کوئی دوسری رائے رکھنے والا اول تو ہمارے سامنے ہوتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی کہیں سے اس موضوع پہ کوئی فلم یا ڈرامہ دکھائی دیتا جو سوچوں کا ساتھ نہ دے سکتا تو ہم بہت آرام سے اسے پروپیگنڈا سمجھ کر مسترد کر دیتے تھے ۔
پھر ہم لوگ تھوڑے بڑے ہوئے تو مقابلے ہوا کرتے تھے ، سکولوں کی سطح پر، تقریری مقابلے سمجھ لیجیے ۔ وہاں ہم لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر اور چہرے کو لال کر کے بہت سے شعر پڑھا کرتے جن میں نیل کے ساحل، کاشغر کی خاک، دین مسلسل، خودی کی بلندی، انسان کی عظمت، حریت فکر، انتھک جدوجہد، کشتیاں جلانا، حق کی فتح ہونا اور نہ جانے کیا کیا ہوا کرتا تھا۔ کسی لفظ کا کوئی مطلب معلوم نہیں تھا۔ ایک بات کا علم تھا کہ آواز جتنی بلند ہو گی، لہجے میں جتنا اعتماد ہو گا، تاثر جتنا ڈرامائی ہو گا اور آئی کانٹیکٹ جتنا سٹرونگ ہو گا جیتنے کے چانس اسی قدر بڑھتے چلے جائیں گے ۔ پڑھنے کا شوق ہوا تو بچوں کے جاسوسی ناولوں سے کام سے شروع کیا۔ مختلف رسالے بھی گھر میں آتے تھے جو سبھی بچوں کے موضوعات کا احاطہ کیا کرتے تھے ۔ اس دوران یوں ہوا کہ ایک عجیب سا احساس ہونا شروع ہو گیا۔ وہ یہ کہ بھئی یہ کہانیاں نری کہانیاں نہیں ہیں، یہ کھیل کھیل میں کوئی نہ کوئی سبق دیا جا رہا ہے ۔ عمر بہت کم تھی، لیکن جہاں کہیں کسی کہانی میں ایسی اصلاحی بو پائی جاتی، اسے وہیں چھوڑ اگلا صفحہ پلٹ لیا جاتا۔ جتنے بھی رسالے ان دنوں گھر آتے تھے
سب کے سب ماشااللہ کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے کہ معماران قوم نیک پاک، راست گو، خوش چلن اور نظریاتی طور پہ پکے انہی جیسے نظریاتی ہوں۔ اب بھی یاد ہے کہ واحد رسالہ آنکھ مچولی تھا جس میں یہ نصیحت بازی کچھ کم تھی۔ شاید وہ بھی اب بند ہو چکا ہے ۔ پھر عمران سیریز اور بڑوں کے دوسرے جاسوسی ناولوں کا دور آیا۔ عمران سیریز میں چوں کہ اصلاحی مقاصد بہرحال کوئی نہیں تھے یا محسوس نہیں ہوتے تھے ، تو وہ ٹکا کر پڑھیں۔ دوسرے جاسوسی ناولوں کے ہیرو بھی کچھ تاریخی کرداروں جیسے محسوس ہوتے تھے ، پندرہ بیس ناول پڑھنے کے بعد احساس ہونا شروع ہو گیا کہ استاد یہاں بھی وہی سب کچھ ہے جس سے پیچھا چھڑا کر نکلے تھے ۔ انہیں بھی پڑھنا چھوڑ دیا۔ ایک ایک کر کے تمام چیزیں جو اس وقت پڑھیں، آج حماقت معلوم ہوتی ہیں۔ اس پورے سفر میں ایک چیز دل چسپ رہی۔ زبردستی کے سبق دینے والے مضامین کبھی بھول کر بھی نہیں دیکھے ، نہ تصویریں دیکھیں۔ ایک مشہور بچوں کے رسالے میں ہمیشہ کسی نہ تقریب کے قصے ہوتے تھے ، ایڈیٹر بھائی جان نے یہ کیا وہ ادھر گئے ، بچوں نے یہ کہا، بڑوں نے ویسے کیا وغیرہ وغیرہ اور اس سب کے بعد ایک نصیحت بھرا انجام ہوتا تھا۔ وہ تمام صفحات خدا کے فضل سے دم بھر میں پلٹا دئیے جاتے ۔ اسی طرح جہاں کسی سکول کی مطالعاتی سرگرمی کا احوال ہوتا تھا، وہ بھی بھرتی والا معاملہ لگتی تھی۔
ایک ڈائجسٹ کا اداریہ اور شروع میں ہی بہت سی تصاویر والے فلاحی پروگرام، وہ بھی کبھی اپنی جانب توجہ نہیں کھینچ پائے ۔ یہی معاملہ فتح و شکست اور لڑنے بھڑنے والی کہانیوں کا تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ اس سب کی وجہ شاید یہ تھی کہ بچوں اور نوجوانوں کے ادب میں جس جس نے جہاں جہاں اصلاحی مقاصد، وعظ و نصیحت یا کوئی بھی ایسا کام شروع کرنے کی کوشش کی، اس سب سے عام آدمی کا دل اچاٹ ہوتا چلا گیا۔ یہ فطری عمل ہے ۔ کہانی یا تو ہوتی ہے ، یا نہیں ہوتی۔ کہانی اس لیے نہیں ہوتی کہ اس سے کوئی نتیجہ نکلے یا قوم کے بچے اس سے کوئی نیک اثر لیں۔ وہ تو بس ہوتی ہے اور اگر اسے پڑھ کر اچھا لگے تو وہ شاندار کہانی کہلاتی ہے ۔ ہم نے کشمیر کا مسئلہ اسی طرح حل کیا ہے ۔ بچپن سے آج تک پانچ فروری کو ایک ہی طرح کے مخصوص ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، خبروں میں وہی دو تین چہرے ہوتے ہیں، وہی سٹیریو ٹائپ سیاسی بیانات ہوتے ہیں، چند جلسوں کا احوال ہوتا ہے ، چند ریلیوں کی جھلک ہوتی ہے ، چند مولانا، چند وکیل، چند رکن کشمیر کمیٹی کے ہوتے ہیں اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ وغیرہ کہہ کہلوا کر معاملے کا مکو ٹھپ دیا جاتا ہے ۔ ان سب چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ایک ہی جیسی چیزیں اور روئیے دیکھ دیکھ کر بچے اس مسئلے سے جذباتی طور پر دور ہو گئے ۔ وہ بچے پھر بڑے بھی ہونے تھے ۔
اب یہ نسل جانتی ہے کہ اصولی طور پر کشمیر کا الحاق ہمارے ساتھ ہونا تھا۔ باقاعدہ دکھ میں مبتلا ہوتی ہے جب مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم ہوتا ہے ۔ انہیں بھائی سمجھتی ہے ، اپنے جیسے انسان سمجھتی ہے ۔ لیکن یہ بات بھی جانتی ہے کہ یہ مسئلہ مستقل طور پر چھڑا رہتا ہے ۔بار بار اسے نکالا جاتا ہے ، جھاڑا پونچھا اور ورق لگا کر پیش کیا جاتا ہے ، ضرورت ختم ہوتی ہے تو پھر جا کر وہیں کسی طاق پہ دھر دیا جاتا ہے ۔ وہ لوگ کیا چاہتے ہیں، ان کے دکھ درد کیا ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں، وہ کس لیڈر کو اپنا مخلص سمجھتے ہیں، وہ اس کیس کو چلانا کس طرح چاہتے ہیں، پاکستان یا بھارت کے لیے موجودہ سٹریٹجیک حالات میں کشمیر کی اہمیت کیا ہے ، یہ سب باتیں اگر کسی چینل یا اخبار میں آتی بھی ہیں تو لوگ باگ سرسری نظر ڈال کر ہٹ جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے دونوں حکومتوں کا موقف کیا ہو گا۔ اس بیچ نقصان کشمیر کا ہو رہا ہے ، کشمیریوں کا ہو رہا ہے ۔ جس طرح کارگل واقعے سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوئی تھی، قوی امکان تھا کہ مسئلہ کشمیر کسی نہ کسی طور سے حل کر لیا جائے گا۔ حل نہ بھی ہوتا لیکن کوئی پرامن تصفیہ ہونے کا بہت زیادہ چانس تھا۔ پھر نہ وہ حالات رہے نہ وہ طاقت رہنے دی گئی، آج بھی سیاسی حکومتوں کو اسی بے اعتباری کا سامنا ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوئی تھی۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل مضبوط جمہوریت ہے ۔ وہ جمہوریت جس کی بنیادیں مضبوط معیشت پہ استوار ہوں اور جس میں للکارنے کے لیے ایک مستقل دشمن کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ جب تک دو تین سیاسی حکومتیں بغیر کسی اندرونی خلفشار کے اپنی ٹرم پوری نہیں کرتیں، اس وقت تک کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

No comments:

Post a Comment